پتنگ بازی

تاریخِ عالم میں پتنگ اڑانے کا اولین تحریری حوالہ سن 200 قبل مسیح میں ملتا ہے جب چین میں سپہ سالار ہان سینگ نے دشمن کے ایک شہر کے باہر پڑاؤ ڈال رکھا تھا، لیکن وہ براہِ راست حملے کا خطرہ مول لینے کے بجائے ایک سرنگ کھود کر شہر میں داخل ہونا چاہتا تھا۔ لیکن اسے یہ اندازہ نہیں ہورہا تھا کہ سرنگ کتنی لمبی کھودنا پڑے گی، اس لیے اس نے پڑاؤ کے مقام سے شہر کی فصیل تک کا فاصلہ ناپنے کی ٹھانی۔

اس نے دیکھا کہ ہوا اس سمت کی ہی چل رہی ہے جہاں وہ سرنگ کے ذریعے حملہ آور ہونا چاہتا ہے اور وہ یہ دیکھ رہا تھا کہ اس کے پڑاؤ والے علاقے سے اس جانب ہوا کے ساتھ کاغذ اڑتے جاتے ہیں۔ بس یہ دیکھ کر اس نے ایک کاغذ لیا، اور اس میں ایک درخت کے چند تنکے باندھ دیے تاکہ اسے ہوا کا دباؤ حاصل ہو سکے جو اس کے اڑنے میں مدد گار ثابت ہو، اور پھر ایک لمبے دھاگے کی مدد سے اسے اڑا دیا۔
جب وہ کاغذ مطلوبہ مقام تک پہنچ گیا تو اسے ناپ کر واپس کھینچ لیا، اور ڈور کو ناپ کر فاصلہ معلوم کر لیا۔ یہی دنیا کی پہلی پتنگ تھی، جو ایک جنگی مقصد حاصل کرنے کے لیے اڑائی گئی تھی۔ پھر قدیم چین میں پتنگ سازی فوجی استعمال کے لیے کی جانے لگی، جس میں فوج کا جاسوسی کا کام بھی تھا۔ اپنے ہی فوجیوں کو ایک پڑاؤ سے دوسرے پڑاؤ تک پیغام رسانی، اور اپنے ساتھیوں کو اپنی پوزیشن بتانے کے لیے پتنگیں اڑائی گئیں، اور حیران کن بات یہ ہے کہ چھوٹے ہتھیار تک ایک جگہ سے دوسری جگہ ان پتنگوں سے پہنچائے گئے۔
پھر اس کے بعد چین سے پتنگ سازی کا یہ فن کوریا پہنچا۔ چین اور کوریا سے ہوتا ہوا جب پتنگ بازی کا یہ فن جاپان پہنچا تو عوام میں اتنا مقبول ہوا کہ جاپان میں ایک سخت قانون نافذ کر دیا گیا جس کے تحت صرف شاہی خاندان کے افراد، اعٰلی سِول اور فوجی افسران، اور چند مراعات یافتہ معزز شہریوں کو پتنگ اڑانے کی اجازت دی گئی۔
مشرقِ بعید سے پتنگ بازی کا مشغلہ کب اور کس طرح برصغیر پاک و ہند پہنچا۔ اور جس ملک میں یہ تفریح ایک صنعت کی شکل اختیار کر گئی ہے، وہ ہے پاکستان، جہاں اب لاکھوں افراد کا روزگار "گُڈی کاغذ" بانس، دھاگے، اور مانجھے سے وابستہ ہے لیکن اب اس شغل کو بھی کچھ غیر قانونی طریقوں کے استعمال، اور ان سے انسانی جانوں کے ضائع ہونے کے بعد بہت سی پابندیوں کا سامنا ہے جس سے بسنت کے موسم کی رونقیں ماند پڑ گئی ہیں۔
آج کل پتنگ اڑانے کے لیے استعمال میں آنے والے مانجھے پر دھات یا پسا ہوا کانچ چڑھا ہوتا ہے تاکہ مخالف شخص کی پتنگ کو اس کی مدد سے جلدی کاٹا جا سکے۔
گذشتہ چند برسوں سے بہت سے پتنگ بازوں نے شیشہ لگا ہوا نائلن کا دھاگہ بھی استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جو روایتی دھاگے کے مقابلے میں بہت مضبوط ہونے کے ساتھ ہی خطرناک بھی ہوتا ہے۔
اور اس قسم کے مانجھے مہلک ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ ان کے راہ گیروں یا موٹرسائیکل پر سوار لوگوں کے گلے پر پِھر جانے سے ان کی موت واقع ہو سکتی ہے۔کئی بار ایسے کیمیکل مانجھے بجلی کے تاروں پرگرتے ہیں جس سے پتنگ اڑانے والے کو بجلی کا کرنٹ لگتا ہے اور اس سے بھی ان کی جان چلی جاتی ہے۔
کئی بار پتنگ اڑانے والے لوگ اس میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ بے خیالی میں پتنگ اڑاتے اڑاتے چھت سے نیچے گر جاتے ہیں۔اس کا ایک پہلو کٹی پتنگ کا لوٹنا بھی ہے۔ کٹی پتنگوں کا پیچھا کرنے والے لڑکوں کے گروہ کئی بار ٹریفک کا نظام تک درہم برہم کر کے رکھ دیتے ہیں۔
پتنگ بازی کو محفوظ بنانے کے لیے کئی طرح کی کوششیں بھی ہوتی رہی ہیں اور کئی بار اس پر پوری طرح سے پابندیاں بھی عائد کی گئی ہیں۔ پاکستان میں پنجاب سمیت کئی علاقوں میں پتنگ بازی پر کئی برس سے پابندی عائد ہے اور پولیس ہر سال بڑی تعداد میں پتنگ بازوں کو گرفتار کر کے ہزاروں کی تعداد میں پتنگیں ضبط کرتی ہے۔
 پاکستان میں بدقسمتی سے اس مشغلے کا کئی غیر قانونی طریقوں کے استعمال کی وجہ سے زوال شروع ہوچکا ہے، اور اب اس پتنگ بازی پر کئی پابندیاں عائد کردی گئی ہیں، جس کی وجہ سے غیر ملکی اب چین کا رخ کرتے ہیں۔ ہر کھیل کے قواعد و ضوابط ہوتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل کیا اور کروایا جائے، نہ کہ اس پر پابندی لگادی جائے۔
اگر پاکستان میں بھی پتنگ بازی کے لیے سال میں ایک دفعہ کوئی کھلی جگہ مخصوص کردی جائے اور پتنگ کی ڈور کی حد پیمائش متعین کردی جائے، تو اس کھیل کو، جو اب ہماری ثقافت کا حصہ بن چکا ہے، نہ صرف بچایا جاسکتا ہے، بلکہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے باعث کشش ہوسکتا ہے جس سے لاکھوں لوگوں کو روزگار مل سکتا ہے، اور پوری دنیا میں ہماری ثقافت متعارف کروائی جاسکتی ہے۔ اور ملک کے زرِ مبادلہ میں بھی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

Comments