ڈاکُو کی بات

 اِمام غِزالیؒ بہت بڑے عالِم دین تھے۔ آپ ایران کے شہر طُوس کے رہنے والے تھے۔ طُوس میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد آپ عراق روانہ ہوۓ تاکہ وہاں کے مدرسہ نظامیہ میں داخل ہو کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں۔
اِمام صاحبؒ ایک قافلے کے ساتھ سفر کر رہے تھے کہ ایک ویران جگہ پر ڈاکُوؤں نے قافلےپرحملہ کر دیا اور قافلے والوں کو لُوٹنے لگے۔
اِمام غزالیؒ کے پاس مال اسباب تو کچھ تھا نہیں، ہاں ایک چیز ایسی تھی جسے وہ بہت قیمتی سمجھتے تھے۔ یہ اُن کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی ایک کتاب تھی۔ اس کتاب میں اُنھوں نے اپنے اُستاد کی پڑھائی ہوئی باتوں کو لِکھ رکھا تھا۔ اس لیے وہ اس کو بہت قیمتی سمجھتے تھے۔ جب ڈاکوؤں نے اِمام صاحب سے یہ کتاب چھین لی تو اُنھیں بہت رنج ہُوا۔ وہ اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوۓ ڈاکوؤں کے سردار کے پاس گۓ اور کہا:
"آپ کے آدمی میری کتاب چھین لاۓ ہیں۔ آپ کے لیے تو وہ کتاب کوئی قیمت نہیں رکھتی مگر میرے لیے بے حد قیمتی ہے۔ میں نے اپنے استاد سے جو کچھ پڑھا ہے، وہ سب اُسی میں لکھ رکھا ہے۔ آپ یہ کتاب مجھے واپس کر دیں تو مہربانی ہو گی۔"
ڈاکوؤں کا سردار اِمام صاحب کی یہ بات سن کر ہنسا اور کہنے لگا:
"عالِم کا علم تو اُس کے سینے میں ہوتا ہے۔ تم کیسے عالم ہو کہ تم سے کاغذ کے چند ٹکڑے چھین لیے گۓ تو تمھارے پاس کچھ بھی نہ رہا؟"
یہ کہہ کر اُس نے اپنے ساتھیوں کو کتاب واپس کرنے کا حکم دے دیا۔
اِمام صاحب کے دل پر ڈاکو کی بات نے بہت اثر کیا اور اُنھوں نے اُسی دن سے اُس کتاب کو یاد کرنا شروع کر دیااور تھوڑے ہی دنوں میں ساری کتاب زبانی یاد کر لی۔ 

Comments