چالیس دِینار

 آج سے کئی سو سال پہلے کی بات ہے ، مُلک عراق کے ایک قصبے جیلان میں ایک لڑکا رہتا تھا ۔اُس کا باپ مَر چُکا تھا۔ صرف ماں تھی۔ وہ بڑی نیک اور عقلمند عورت تھی۔ اُس نے پہلے تو لڑکے کو خود تعلیم دی، پھر قصبے کے مدرسےمیں بٹھا دیا ۔ قصبے میں تعلیم ختم کرنے کے بعد ماں نے دیکھا کہ لڑکے کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کا شوق ہے تو اُس نے اُسے بغداد بھیجنے کا فیصلہ کر لیا۔ اُس زمانے میں بغداد کا شہر تعلیم کے لیے ساری دُنیا میں مشہور تھا۔
مگر لڑکے کو بغداد بھیجنا آسان بات نہ تھی۔اُن دنوں سفر کرنا مُشکل تھا۔ ریل اور موٹر تو بڑی بات ہے ، گھوڑا گاڑیاں تک نہ تھیں۔ لوگ گھوڑوں اور اُونٹوں پر سفر کرتے تھے۔ دُوسرے جگہ جگہ ڈاکوؤں کے گروہ موجُود تھے۔ جو مُسافروں کو لُوٹ لیا کرتے تھے۔ اس لیے لوگ اکیلے سفر کرنے کے بجاۓ قافلوں کی صُورت میں سفر کرتے تھے۔
اِتفاق سے اُنھی دنوں ایک قافِلہ بغداد جا رہا تھا۔ ماں نے اپنے لڑکے کو اس قافلے کے ساتھ کر دیا اور چلتے وقت اُسے نصیحت کی:
" بیٹا ، ہر حال میں سچ بولنا۔ "
لڑکے نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کرنے کا وعدہ کیا اور پھر اُس کی دُعائیں لے کر قافِلے کے ساتھ بغداد کی طرف روانہ ہو گیا۔
یہ قافِلہ ابھی بغداد کے راستے ہی میں تھا کہ ایک جگہ ڈاکوؤں نے حملہ کر دیا اور قافِلے والوں کا مال اسباب لُوٹنے لگے۔ ڈاکُو لوگوں کو مارتے پیٹتے اور لوٹتے ہوۓ اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھے۔ ایسی حالت میں وہ لڑکا جس کی عُمر اُس وقت صرف بارہ سال تھی، چُپ چاپ ایک طرف کھڑا تھا۔ اس کے چہرے پر نہ کوئی گھبراہٹ تھی اور نہ پریشانی۔ اتنے میں ایک ڈاکُو اُس کے پاس آیا اور اُس سے پُوچھنے لگا:
"لڑکے، تیرے پاس بھی کچھ ہے؟"
لڑکے نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔"ہاں، چالیس دینار ہیں۔"
ڈاکُو نے اسے مذاق سمجھا۔ وہ سوچنے لگا کہ بھلا اتنے سے لڑکے کے پاس چالیس دینار کہاں ہو سکتے ہیں؟ وہ ہنستا ہُوا چلا گیا۔
کچھ دیر بعد ایک اور ڈاکُو لڑکے کے پاس سے گزرا۔ اُس نے بھی لڑکے سے وہی سوال کیا اور لڑکے نے پھر وہی جواب دیا۔
پہلے ڈاکُو کی طرح اُس کو بھی اس بات کا یقین نہ آیا اور وہ اِسے مذاق سمجھ کر ہنستا ہُوا چلا گیا۔ اس کے بعد ایک اور وہ اسے مذاق سمجھ کر ہنستا ہُوا چلا گیا۔ اس کے بعد ایک اور ڈاکُو آیا، اس کے ساتھ بھی یہی گُفتگُو ہوئی۔ وہ اسے پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گیا اور کہنے لگا:
"سردار، یہ لڑکا کہتا ہے کہ میرے پاس چالیس دِینار ہیں۔ لیکن اس کی شکل سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایک پُھوٹی کوڑی بھی نہیں۔ سردار نے حیرانی سے لڑکے کی طرف دیکھا اور اُس سے پُوچھا:
"کیا واقعی تمھارے پاس چالیس دِینار ہیں؟"
لڑکے نے جواب دیا "جی ہاں۔"
سردار نے پُوچھا "کہاں ہیں؟"
لڑکا بولا "میرے کُرتے کے اندر سِلے ہُوۓ ہیں۔"
سردار نے لڑکے کا کُرتا اُدھڑواکر دیکھا تو اس میں سے سچ مُچ چالیس دِینار نکلے۔ وہ اور زیادہ حیران ہوا اور کہنے لگا:
"لڑکے ، کیا تجھے معلوم نہیں کہ ہم ڈاکُو ہیں اور لوگوں کو لُوٹنا ہمارا کام ہے؟"
لڑکے نے جواب دیا:"میں جانتا ہُوں۔"
اس پر سردار نے نرمی سے کہا" پھر تم نے یہ دینار چُھپانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اگر تم اپنی زبان سے نہ کہتے تو ہمیں خیال بھی نہیں ہوسکتا تھا کہ تمھارے پاس چالیس دینار ہیں ۔"
اس پرلڑکے نے جواب دیا۔" میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بغداد جا رہا ہوں۔ یہ چالیس دینار میری والدہ نے حفاظت کے خیال سے میرے کُرتے کے اندر سی دیے تھے تاکہ کسی کو پتا نہ چلے۔ مگر رُخصت ہوتے ہوۓ اُنھوں نے مجھے نصیحت  کی تھی کہ بیٹا، ہر حال میں سچ بولنا۔ ماں کی نصیحت مجھے ان چالیس دیناروں سے زیادہ عزیز ہے۔"
لڑکے کے سچ بولنے کا سردار کے دل پر بڑا اثر ہوا۔ وہ اپنے آپ سے کہنے لگا:
"افسوس، تُجھ سے تو یہ لڑکا ہی ہزار درجے اچھا ہے۔ جس نے اس حالت میں بھی اپنی ماں کی نصیحت کو یاد رکھا اور سچ سے مُنہ نہ موڑا۔ ایک تُو ہے کہ خُدا سے مُنہ موڑ کر بُرے کاموں میں پھنسا ہُوا ہے۔"
سردار نے اُسی وقت اپنے ساتھیوں کو حُکم دیا کہ قافِلے والوں کا تمام مال واپس کر دیں۔ پھر اُس نے سچے دل سے عہد کیا کہ اب وہ کبھی خدا کی مخلوق کو دُکھ نہیں دے گا اور ہمیشہ نیک کام کرے گا۔
اس طرح اُس لڑکے کے سچ بولنے کی وجہ سے ایک ڈاکُو ﷲ کا نیک بندہ بن گیا۔یہی وہ لڑکا ہے جسے دُنیا شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے نام سے جانتی ہے۔ آپ ﷲکے بہت بڑے ولی اور کرامت والے بُزرگ تھے۔ آپ نے تمام زندگی اِسلام کی خدمت کی اور لوگوں کو سیدھا اور سچا راستہ دکھایا۔ 

Comments