پنج پیر ـــــ حصہ اول

"پنج پیر"کے ساتھ قدرت اللہ شہاب کی بڑی پرانی راہ و رسم تھی۔ انکا پہلا تعارف بھی عجیب حالات میں تھا۔جب وہ اکبر اسلامیہ ہائی سکول جموں کی تیسری جماعت میں پڑھتا تھا، تو کبھی کبھی اپنے ایک دوست ممتاز کے ساتھ دریاۓ توی کے کنارے ہندوؤں کی شمشان بھومی میں ارتھیوں کے جلنے کا تماشا دیکھنے جایا کرتا تھا۔ ایک روز کسی جلتی ہوئی لاش کا سر ایسے دھماکے سے پھٹا ، کہ اس کے مغز کا ایک لوتھڑا چٹاخ سے ممتاز کے گال پر لگ کے چپک گیا۔ وہ چیختا چلاتا سر پٹ بھاگا اور دریاۓ توی کے پانی میں سر ڈبو کر بیٹھ گیا۔ اس بھگدڑ میں اس کے پاؤں کا جوتا نکل گیا، اور پھسل کرگہرے پانی میں جا ڈوبا۔ اب ممتاز زار زار رونے لگا، کہ وہ ایک پاؤں ننگا گھر کیسے جاۓ گا۔ اسکا باپ پولیس کا ہیڈ کانسٹیبل تھا۔ اور چھوٹی چھوٹی بات پر بڑی بڑی سزا دینا اسکا روز کا معمول تھا۔ ممتاز کی آہ و زاری دیکھ کر ایک گجری کو ترس آگیا۔ وہ شہر میں دودھ بیچ کر توی کے پار اپنے گاؤں واپس جا رہی تھی۔ ممتاز کی بپتا سن کر وہ بولی، کہ یہاں بیٹھ کر رونے دھونے سے کیا ملے گا؟ تم سیدھے "پنج پیر" چلے جاؤ۔ پیر بادشاہ ضرور مدد کرے گا۔
ہم دونوں تھکے ہارے ، افتاں و خیزاں شام گۓ جموں کے ایک مضاف رام نگر پہنچے۔ وہاں پوچھ پاچھ کر پنج پیر کو تلاش کیا۔ یہ سری نگر جانے والی بانہال روڈ سے کچھ دور دامنِ کوہ میں درختوں کے جھرمٹ میں گھرا ہوا ایک ویرانہ سا تھا۔ یہاں چند قبریں تھیں۔ جن میں ایک قدرے بڑی اور نمایاں تھی۔ اس کے سرہانے طاقچہ سا بنا ہوا تھا۔ جس میں ایک بجھا ہوا مٹی کا دیا خالی پڑا تھا۔ کڑوے تیل کے دھوئیں سے یہ چراج دان کالا سیاہ ہو چکا تھا۔ مزار پر مٹھی بھر بھنے ہوۓ چنے، کچھ بتاشے اور کچھ پیسے بکھرے ہوۓ تھے۔ چاروں طرف ہُو کا عالم تھا۔ کچھ دور اوپر بانہال روڈ تھی۔ اس پر بسیں بھی چل رہی تھی، ٹرک بھی گزر رہے تھے، موٹریں بھی آجا رہی تھیں۔ لیکن ان سب کی آواز پنج پیر کے ویرانے سے کہیں باہر ہی باہر رک جاتی تھی۔ نیچے توی کا دریا چٹانوں سے سرپٹختا شاں شاں کرتا گزرتاتھا۔ لیکن اس کا شور بھی کہیں باہر ہی تحلیل ہو کے رہ جاتا تھا۔ سامنے ایک سر سبز پہاڑی پر مہاراجہ کا فلک بوس پیلس اور مہارانی کا بے شمار بند کھڑکیوں والا محل تھا۔ لیکن پنج پیر کی نشیب سے وہ کیڑے مکوڑوں کے بناۓ ہوۓ مٹی کے بُھر بُھرے سے گھروندے دکھائی دیتے تھے۔

Comments