پنج پیر ــــــــــ حصہ سوم

نذرانہ چڑھانے کی دیر تھی کہ پنج پیر پر صدیوں سے چھایا ہوا خاموشی کا طلسم چٹاخ سے ٹوٹ گیا۔ سرینگر روڈ پر لاریوں اور ٹرکوں کی گھاؤں گھاؤں درختوں کا حصار توڑ کر مزار سے ٹکرانے لگی۔دریاۓ توی کی مہیب شوں شاں کانوں کے پردے پھاڑنے لگی۔مہاراجہ کا پیلس اور بھی فلک بوس ہو گیا۔ مہارانی کے محل کی سینکڑوں بند اور تاریک کھڑکیاں کھل کے روشن ہو گئیں۔ میرا سر تیز رفتار موٹر کے پہیے کی طرح  گھومنے لگا۔ اور پنج پیر کی قبروں کے تعویذ چیخ چیخ کر مجھے لعنت ملامت کرنے لگے، کہ ابےاوبے غیرت، ابے طوطا چشم، ہمارے ساتھ پندرہ سال کا یارانہ توڑتے ہوۓ تجھے ذرا بھی شرم نہ آئی۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے دم  دبا کر فوراً اپنا سوا روپیہ واپس اٹھا لیا۔ مزار پر پڑے ہوۓ پیسوں سے اپنا حصہ وصول کیا۔ پاؤں سے جوتا اُتار کر پانچ سات بار اپنے سر پر زور زور سے مارا اور چیخیں مارمار کر بے اختیار رونے لگا۔
میری چیخوں سے گھبرا کر کئی پرندے درختوں سے اُڑ گۓ۔ لاریوں اور ٹرکوں اور دریاۓ توی کا شوروشغب بھی پنج پیر کے محیط سے باہر نکل گیا۔ بے برکتی کے جھکڑ بند ہوگۓ۔ میرے سر کے گومتے ہوۓ پہیے پر بریک لگ گئی۔ راج محل دھڑام سے گر کر کیڑے مکوڑوں کا مسکن بن گۓ۔ پنچ پیر اپنے وہی پرانے سکوت اورسکون اور سناٹے کی چادرتان کر لیٹ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے دل کی کال کوٹھڑی میں ایک عجیب سی دیوار گر یہ نصب ہوگئی۔
خاموش آنسوؤں میں مقناطیس ہوتا ہے، جوآرزوؤں کے لوح چون کو چُن چُن کر آہستہ سے قریب لاتا ہے۔ بلند چیخوں سے لاوا پھوٹتاہے، جس سے کون و مکان میں زلزے آتے ہیں۔ اس کا تجربہ مجھے ایک بار اور بھی ہو چکا ہے۔ جب ماں جی نے کراچی کے جناح ہسپتال میں وفات پائی۔ تو اُن کی میت کو گھر لانے کے لۓ رات کے ایک بجے ایمبولنس میں رکھا گیا۔ میرے بھائی اوربہن دوسرے عزیزبھی اسی ایمبولنس میں سوار ہو گۓ۔ میرے پاس ڈرائیورنہ تھا۔ اس لۓ میں تن تنہا کار چلا کر ایمبولنس کے پیچھے پیچھے روانہ ہو گیا۔ یتیمی کے اس کارواں میں چلتے چلتے دفعتاً میرے تن بدن اورمیری روح کا لاوا بری طرح اُبلنے لگا۔ میں نے کار کے سب شیشے چڑھا کر بند کر لۓ۔ اور پھر سٹیئرنگ وہیل پرسرمارمارکر اتنا زورزور سے،اتنا زورزورسے رویا ہوں،کہ مجھے محسوس ہونے لگاجیسےماں جی ایمبولنس سے اُٹھ کر میرے ساتھ والی سیٹ پر آبیٹھی ہوں۔ یہ احساس اتنا صاف اور پُر یقین تھا کہ جب گھر پہنچ کر گاڑی رُکی تو میں اُتر کر اس کا دوسرا دروازہ بھی کھولنا چاہا تاکہ ماں جی بھی باہر آجائیں۔ لیکن وہاں کون تھا جو باہر آتا۔ لاش تو ایمبولنس سے نکل رہی تھی۔
پنج پیرکے ساتھ اپنا رشتہ ازسرنو استوار کرکے جب میں واپس لوٹا، تو میرا بُرا حال تھا۔ ہاتھ تھرتھرا رہے تھے۔ ٹانگوں میں رعشہ تھا۔ پاؤں من من کے بھاری ہو رہے تھے اور سارا جسم کچے پھوڑے کی طرح ٹیسیں ماررہا تھا۔ کسی نہ کسی طرح میں کچھ دور پیدل چلا۔ پھر ایک تانگے میں بیٹھ کر گھر پہنچ گیا۔

Comments