پنج پیر ــــــ حصہ دوم

ہم دیر تک خاموشی سے بیٹھے ہوۓ پیر بادشاہ کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن کسی نے بچارے ممتاز کا کھویا ہوا بوٹ اسے واپس لا کر نہ دیا۔ آخرتنگ آکر میں نے مزار پر پڑے ہوۓ پیسے چن کر گنے۔ پندرہ آنے تھے۔پانچ آنے میں نے اپنی جیب میں ڈالے۔ پانچ آنے ممتاز کو دیۓ، اور باقی پانچ آنے مزار پر واپس رکھ دیۓ۔
اس روز کے بعد پنج پیر ہماری توجہ کا خاص مرکز بن گیا۔ ہم جمعرات کے جمعرات وہاں باقاعدگی سے جاتے۔ کیونکہ جمعرات کو نذرانہ زیادہ چڑھتا تھا۔ اور ایمان داری سے حساب کرکے اپنا حصہ وصول کر لاتے۔ تزکیہء نفس کی خاطر ہم نے عہد کر رکھا تھا، کہ اس پیسے کو دنیاوی ضروریات پر صرف کرنا ہمارے اوپر حرام ہے۔ چنانچہ اس رقم سے ہم ہفتہ بھر گرمیوں میں صرف ملائی کی برف اور سردیوں میں اخروٹ اور کشمش کھایا کرتے تھے۔
کچھ عرصہ بعد ممتاز کا ہیڈکانسٹیبل باپ فوت ہو گیا۔گھر میں غربت آگئی اور ممتاز پڑھائی چھوڑ کر ریاست کی فوج میں سپاہی بھرتی ہوگیا۔ ساڑھے اٹھارہ روپے ماہوار تنخواہ۔بارک میں رہائش اور کھانا مفت۔ اب میں اکیلا ہی باقاعدگی سے پنج پیر آنے جانے لگا۔ لیکن انصاف سے کام لے کر میں نے تقسیم زر کے فارمولے میں تھوڑی سی ترمیم کر دی۔ اب میں نصف رقم خود رکھ لیتا تھا اور نصف پنج پیر کے حوالے کر دیتا تھا۔ یہ سلسلہ بڑی باقاعدگی سے جاری رہا۔
پرنس آف ویلز کالج سے بی ایس سی کرنے کے بعد میں ایم۔اے کے لۓ گورنمنٹ کالج لاہور چلا گیا۔ وہاں سے جب کبھی چھٹیوں پر جموں آنا جانا ہوتا، تو میں ہر جمعرات کو پنج پیر کے ساتھ اپنی وضعداری ضرور نبھاتا تھا۔
لیکن آج جب میں اپنے نام پر آئی سی ایس کے تین حروف ڈالے پنج پیر پہنچا تو زندگی میں پہلی بار مجھے ان صاحبانِ مزار پر ترس آیا۔ کسی کو اتنا بھی معلوم نہیں تھا، کہ یہ مزار کن لوگوں کے ہیں۔ ان کے بارے میں بھانت بھانت کی روایات زبانِ زد خاص و عام تھیں۔ کوئی کہتا تھا یہ پانچ قطب تھے۔ کسی کا خیال تھا یہ پانچ ابدال تھے۔ کسی کا عقیدہ تھا کہ یہ پانچ ولی تھے جو اس علاقے میں اسلام کی شمع روشن کرنے آۓ تھے۔ کچھ لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ پانچ چور تھے، جو قتل ہو کر یہاں مدفون ہوۓ۔ اپنی زندگی میں وہ جو کچھ بھی تھے ہوتے رہیں۔ اب تو وہ فقط اپنی ذات کی نفی تھے۔ کسی کو ان کا نام تک معلوم نہ تھا۔ جو کوئی جس عقیدے کا غلاف ان پر چڑھا دیتا تھا، وہ بلا چون و چراں اسے پہن لیتے تھے۔ نذرانوں کا ایک تہائی حصہ انہیں ملے، یا نصف ان کے لۓ برابر تھا۔ ولی ہوتے تو تصرف دکھاتے۔ چور ہوتے تو مارتے۔ وہ بچارے تو نفی تھے، بالکل نفی۔
نۓ آئی سی ایس کو ان بچارے منفی قسم کے مجبور و معذور بزرگوں پر بڑا ترس آیا۔ ایک بھر پور جذبہ رحم سے سرشار ہو کر میں نے ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھی جو آج تک پہلے کبھی نہ پڑھی تھی اور جیب سے سوا روپیہ نکال کر مزار پر نذرانہ چڑھا دیا جو آج تک پہلے کبھی نہ چڑھایا تھا۔

Comments