جَو کا دلیا

 حضرت عُمر بن عبدالعزیز ایک بہت بڑی سلطنت کے خلیفہ ہونے کے باوجود نہایت سادہ زندگی گُزارتے تھے۔
ایک بار اُنھیں اِطلاع ملی کہ سپہ سالار کے باورچی خانے کا روزانہ خرچ ایک ہزار درہم ہے۔ اُنھیں بڑا دُکھ ہوا کہ جس رقم پر یتیموں، مسکینوں اور بیواؤں کا حق ہے۔ اُسے سپہ سالار یُوں اُڑا رہا ہے۔اُنھوں نے سپہ سالار کو پیغام بھیجا کہ تُم سے کُچھ صلاح مشورہ کرنا ہے۔کل دُوپہر کا کھانا ہمارے ساتھ کھاؤ۔
دُوسرے دن حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے پنے خادم کو حکم دیا کہ خوب لزیز اور مزے دار کھانے تیار کیے جائیں اور ساتھ ہی جَو کا دلیا بھی بنایا جاۓ۔ خادم نے ایسا ہی کیا۔
جب سپہ سالار آیا تو حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے اُس کے ساتھ باتیں شروع کر دیں اوراتنی دیر تک باتیں کرتے رہے کہ سپہ سالار کے پیٹ میں بُھوک کے مارے چُوہے دَوڑنے لگے۔ وہ حضرت عُمر بن عبدالعزیز کے اَدب کی وجہ سے زبان سے تو کچھ نہیں کہہ سکتا تھا مگر اُس کے چہرے سے صاف پتا چل رہا تھا کہ بُھوک سے اُس کی جان پر بنی ہوئی ہے۔
جب حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے دیکھا کہ اب زیادہ دیر تک بُھوک برداشت کرنا سپہ سالار کے لیے ممکن نہیں ہے تو اُنھوں نے اپنے خادم سے کہا:
"ہمارا کھانا لاؤ۔"
خادم نے جَو کا دلیا لا کر اُن کے سامنے رکھ دیا۔ حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے سپہ سالار سے کہا:"بسمﷲ کیجیے۔"
سپہ سالار کو بڑے زور کی بُھوک لگی تھی، وہ جَو کا دلیا کھانے لگا۔ تھوڑی دیر بعدحضرت عُمر بن عبدالعزیز نے پھر اپنے خادم سے کہا:
خادم نے مہمان کے لیے جو لزیز کھانے تیار کیے تھے وُہ سب سامنے لا رکھے۔حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے سپہ سالار سے کہا:
"یہ جَو کا دلیا تو میرے لیے تھا۔ آپ کا کھانا یہ ہے۔ شوق فرمائے۔"
سپہ سالار نے جواب دیا  "میرا پیٹ تو جَو کا دلیا کھا کر ہی بھر گیا ہے۔ اب میں ایک لُقمہ بھی نہیں لے سکتا۔"
یہ سُن کر حضرت عُمر بن عبدالعزیز نے کہا:
"اِس جَو کے دلیے پر مشکل سے ایک درہم خرچ آیا ہے۔ جب تُمھارا پیٹ ایک درہم میں بھر سکتا ہے تو تم ہر روز اپنے کھانے پر ایک ہزار درہم کیوں خرچ کرتے ہو؟ یہ فضول خرچی ہے اور فضول خرچی کرنے والوں کو ﷲ دوست نہیں رکھتا۔ یہی ایک ہزار درہم اگر تُم غریبوں اور مسکینوں کو دو توﷲ تُم سے کتنا خوش ہوگا۔"
حضرت عُمر بن عبدالعزیز کی ان باتوں نے سپہ سالار کے دل پر بڑا اثر کیا اور اُس نے اُسی وقت فضول خرچی سے توبہ کرکے سادہ زندگی گزارنے کا عہد کر لیا۔

Comments